۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

حوزہ/ جامع مسجد آل عمران کراچی یونیورسٹی میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے کہا کہ میڈیا کی اہمیت ناقابلِ انکار ہے۔ بنو امیہ نے اپنے دورِ حکومت میں میڈیا پر کنٹرول کر کے اہل بیت اطہار (ع) کے خلاف سرکاری سطح پر طویل عرصے تک بھرپور پروپیگنڈا کیا اور اپنے دور میں وہ مسلمانوں کے عمومی افکار کو اہلِ بیت (ع) سے منحرف کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامع مسجد آل عمران کراچی یونیورسٹی میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے کہا کہ میڈیا کی اہمیت ناقابلِ انکار ہے۔ بنو امیہ نے اپنے دورِ حکومت میں میڈیا پر کنٹرول کر کے اہل بیت اطہار (ع) کے خلاف سرکاری سطح پر طویل عرصے تک بھرپور پروپیگنڈا کیا اور اپنے دور میں وہ مسلمانوں کے عمومی افکار کو اہلِ بیت (ع) سے منحرف کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے، جس کے سبب اس دور کے مسلمانوں کو مولا علی علیہ السلام کی مسجد میں شہادت پر حیرت ہوئی کہ علی(ع) کا مسجد سے کیا تعلق تھا؟!

انہوں نے واقعۂ کربلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ آگے چل کر اور اسی طرح کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر لوگوں نے امام حسین(ع) کو تنہا چھوڑ دیا۔ صرف کوفہ والوں نے یا عراق والوں نے نہیں بلکہ مکہ اور مدینہ والوں نے بھی امام کو تنہا چھوڑ دیا۔ مدینہ والوں نے تو امام حسین(ع) کو دوشِ رسول(ص) پر بھی دیکھا تھا لیکن جب 28 رجب کو امام نے بنو امیہ کے ستم سے تنگ آ کر مدینہ چھورنے کا ارادہ فرمایا تو کوئی مدد کے لیے سامنے نہیں آیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ آتے اور کہتے اے فرزند رسول(ص) آپ کیوں مدینہ چھوڑیں گے ہم بنو امیہ اور اس کے کارندوں کو یہ شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں، اپ یہیں رہیے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ امام مکہ پہنچے، جب 8 ذی الحجہ کو بنو امیہ کے ستم سے مکہ چھورنا پڑا تو مکہ، مدینہ، یمن، کوفہ، بصرہ، دمشق غرص ہر علاقے کے مسلمان مکہ میں تھے، حج کے لیے آئے ہوئے تھے لیکن انہوں نے آگے بڑھ کر یہ نہیں کہا کہ اے فرزند رسول آپ مکہ کیوں چھوڑیں گے ہم سب مل کر بنو امیہ کے کارندوں کو مکہ چھورنے پر مجبور کریں گے آپ یہیں تشریف رکھیے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ تو سب نے امام کو تنہا چھوڑ دیا۔ کیون تنہا چھور دیا؟ اہل بیت اطہار(ع) کے خلاف بنو امیہ کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر۔ تو بالآخر کربلا کا المناک سانحہ پیش آیا اور دوشِ رسول(ص) پر سوار ہونے والے حسین(ص) کو شہید کرنے کے بعد سر مبارک کو نوک نیزہ پر بلند بھی کیا تو لوگ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔۔۔!

ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے مزید کہا کہ یہ درحقیقت میڈیا کو اپنے کنٹرول میں لے کر بھرپور پروپیگنڈا کرنے کا نتیجہ تھا، لیکن یزید اور بنو امیہ کے ارادوں کو خاک میں ملانے کے لیے حضرت بی بی زینب کبری(س) اور حضرت امام زین العابدین (ع) سخت ترین حالات میں میدان میں آ گئے اور میڈیا کو یزیدیوں اور بنو امیہ کے کنٹرول سے نکالنے کے لیے انتہائی مشکل حالات میں جدوجہد کی اور دستیاب ذرائع ابلاغ کے ذریعے اہل بیت اطہار(ع) کی حقانیت اور امام حسین(ع) کی قربانی کے مقصد کو کامیاب ابلاغ رسانی کے ذریعے کوفہ، شام اور تمام اسلامی مناطق کے لوگوں تک پہنچا کر بنو امیہ اور یزیدیوں کی تمام محنتوں پر پانی پھیر دیا۔ اسیری کے باوجود انہوں نے اپنے زمانے کے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا اور بنو امیہ کے پروپیگنڈوں کا بھرپور جواب دیا اور تاریخ کے اندر انہیں رسوا کر کے چھوڑا۔۔۔ جس کے سبب شہادت امامِ حسین(ع) پر سرکاری سطح پر جشن منانے کا حکم دینے والے یزید کو شکست شکست تسلیم کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ خدا ابن مرجانہ کے اوپر لعنت کرے کہ اس نے امام حسین کو شہید کیا۔۔۔ یعنی رسوائی سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو بے قصور ظاہر کرانے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی ناکام رہا!

پروفیسر جواد حیدر ہاشمی نے کہا کہ آج اگر مسلمانوں کے دلوں میں اہل بیت اطہار(ع) کا احترام ہے اور ان کی محبت کو اپنے لیے لوگ سرمایہ ایمان سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امام زین العابدین (ع) اور حضرت زینب کبری (س) کامیاب ہو گئے اور یزید اور یزیدی ناکام ہو گئے۔ آج اگر ہر جگہ امام حسین(ع) کی عظیم قربانی کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حضرت امام سجاد(ع) اور ثانی زہرا (س) کامیاب ہو گئے، وگرنہ بنو امیہ کے دور میں ان کے منفی پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر لوگ ان ہستیوں کے ساتھ بغض رکھنے اور ان سے نفرت کرنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے، یہ تاریخ اگر پلٹی ہے تو امام سجاد(ع) اور جناب زینب(س) کی کامیاب پیغام رسانی کی وجہ سے پلٹی ہے تو آج ہمیں بھی ان ہستیوں کے نقش قدم پر اسلام اور حقانیت کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے فوجداری ترمیمی بل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ہفتے توہینِ صحابہ بل کو چور دروازے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروا لیا گیا، قومی اسمبلی میں جب یہ بل پیش کیا گیا تو 342 ارکان میں سے فقط 24 ارکان حاضر تھے ان سے بھی بل کے متن کو پوشیدہ رکھا گیا، بل پر بحث نہیں کرائی گئی۔ اب گزشتہ دنوں اسی انداز میں چوری چھپے سینیٹ میں بھی پیش کیا گیا اور کسی بحث کے بغیر سینیٹرز کو بل کے متن سے لاعلم رکھ کر پاس کرایا گیا۔ جب متعلقہ کمیٹی میں بحث کے لیے بھیجنے کی بات کی گئی تو بات نہیں سنی گئی۔ اسی سے بل پیش کرنے والوں اور عجلت میں پاس کرانے والوں کی بد نیتی سامنے آتی ہے کہ وہ ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ اپنے مخصوص افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ قوانین؛ ملک میں بہتری کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ قوانین؛ لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن یہ کیسا قانون ہے جس سے قوم میں اضطراب پایا جاتا ہے اور جس سے انتشار اور انارکی پھیلنے کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی کی بھی توہین کے قائل نہیں ہیں۔ مقدس شخصیات تو اپنی جگہ ہم عام انسان کی توہین کو بھی جائز نہیں سمجھتے۔۔۔ لیکن اس قانون میں سو طرح کے ابہامات پائے جاتے ہیں۔ اس میں توہین کے حدود و قیود واضح ہی نہیں ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر کسی چیز کو توہین سمجھتا ہے۔ اس بل میں علمی وتحقیقی گفتگو اور توہین آمیز گفتگو کے مابین بھی کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے حالانکہ دلائل کی بنیاد پر کسی بھی مسئلے اور واقعے کے حوالے سے علمی گفتگو کو ساری دنیا کے اہل علم سراہتے ہیں لیکن اس بل میں علمی و تحقیقی گفتگو بھی بظاہر توہین میں شمار ہونے کا خدشہ ہے۔ مزید یہ کہ صحابی کی تعریف بھی طے نہیں ہے۔ اگر مختلف مسالک کے بیس علما کو سامنے بٹھا کر آپ صحابی کی تعریف پوچھیں تو بیس الگ الگ تعریفیں سامنے آئیں گی ایسے میں کیسے قانون کا درست نفاذ ہو گا، مزید یہ کہ بعض لوگ قرآن کی نظر میں فاسق قرار پانے والوں کو بھی صحابیت کا درجہ دے دیتے ہیں تو ان چیزوں کو جانچنے کا معیار کیا ہے آخر؟!

مولانا ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے کہا کہ ہم سیاسی میدان میں حاضر شیعہ مذہبی جماعتوں سے توقع کرتے ہیں اور ہمیں ان سے امید بھی ہے کہ وہ یہ کام کریں گے کہ وہ اس غیر منصفانہ بل کو روکنے کے لیے ہر قانونی راستہ اختیار کریں اور صدر کو اس کی توثیق سے روکنے کی کوشش کریں پھر بھی اگر توثیق ہو جائے تو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے کالعدم قرار دینے کی بھرپور کوشش کریں۔۔۔ کیونکہ یہ چند لوگوں کی خواہشات پر مبنی بل ہے اس بل پر نہ صرف ہمارا اعتراض ہے بلکہ دیگر مسالک کے بھی بہت سے لوگوں کو اعتراض ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .